گھریلو جھگڑوں کے اسباب، نقصانات اور نجات کے حل

0

 گھریلو جھگڑوں کے اسباب، نقصانات اور نجات کے حل

گھریلو جھگڑوں کے اسباب، نقصانات اور نجات کے حل


از: عبدالعلیم دیوگھری

اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت میں اجتماعی شعور رکھا ہے، جس کے زیر اثر اس کے دل میں دوسروں کے تئیں محبت اور ہمدردی و معاونت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، پھر یہی شعور خاندان و قبائل اور معاشرے کی تشکیل کی بنیاد بنتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات چوں کہ ہمہ گیر ہیں، اس وجہ سے اس نے انسان کے اس فطری شعور کا بھرپور لحاظ کیا اور اس کی اجتماعیت کے استحکام و بقا کے لیے ایسے الہامی قوانین عطا کیے جن کی پیروی صالح و خوش گوار معاشرے کی تشکیل کا باعث ہے، اس نے حسن معاشرت اور مکارم اخلاق کی تعلیم دی اور معاشرے کے ہر فرد کو حقوق و مراعات عطا کیے، جب تک انسان ان قوانین کے دائرے میں رہتا ہے معاشرہ امن و اخوت کا گہوارہ بنا رہتا ہے اور جیسے ہی ان کو نظر انداز کر دیا جاتا معاشرے میں مختلف برائیاں پنپنے لگتی ہیں، باہمی چپقلش، رنجش و کشیدگی، نفرت و عداوت اور نزاع و فساد وغیرہ جیسی برائیوں کے جراثیم درحقیقت اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ اسلام کے معاشرتی قوانین کو نظر انداز کیا جانے لگتا ہے۔


گھریلو جھگڑوں کے اسباب

آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرہ کا ایک بڑا سنگین مسئلہ گھریلو جھگڑوں، باہمی تلخیوں، الزام تراشیوں اور ایک دوسرے کے حقوق و جذبات کی پامالی کا ہے، جس کے مختلف اسباب ہیں اور وہ تمام اسباب اسلامی قانون معاشرت سے پہلو تہی کا نتیجہ ہیں۔ لہذا اولا ہم ان اسباب و عوامل پر بات کریں گے پھر شرعی رہنمائی کی روشنی میں ان کا حل تلاش کریں گے۔


بداخلاقی

سب سے بڑی وجہ جو لڑائی جھگڑوں اور حقوق کی پامالی کی ہے وہ اخلاقی انحطاط، صبر و شکیبت کا فقدان، لہجوں اور رویوں کی سختی اور حلم و درگزر کی صلاحیت سے محرومی ہے۔ بیوی نے غلطی سے کھانے میں نمک زیادہ ڈال دیا تو شوہر آگ ببولا ہو گیا، بچوں سے کوئی چوک ہوئی یا کوئی چیز توڑ دی تو پدرانہ انداز میں فہمائش کے بجائے چیخنے چلانے لگا، بہو سے کسی کام میں کوتاہی ہو گئی تو ساس نے طعن و تشنیع شروع کر دیا۔ بھلا جب افرادِ خاندان میں کشادہ ظرفی نہ ہو، معاف کرنے کا ہنر نہ ہو تو امن و سکون کی فضا کیسے قائم ہو سکتی ہے۔


غیبت اور بدگمانی

دوسری وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ غیبت چغلی اور بدگمانی ہے، عموما ہوتا یہ ہے کہ گھر کے اندر کوئی ناگوار بات پیش آ جائے تو دوسروں لوگوں سے اس کا تذکرہ کیا جانے لگتا ہے۔ بہو سے غلطی ہوئی تو ساس پورے محلے میں اس کی تشہیر کرتی رہی، ساس کی بات ناگوار لگی تو بہو نے اپنے والدین اور ننھیال کے لوگوں کے ساتھ کر گھنٹوں اس موضوع پر بات کی۔ ظاہر ہے کہ یہ چیزیں پردہ خفا میں رہنے والی نہیں ہیں، کسی نہ کسی ذریعے سے ساس کو یا ساس کی حرکت کا بہو کو پتہ لگ ہی جاتا ہے، اب ایسے میں ان دونوں کے درمیان توافق و ہم آہنگی کی صورت بھلا کیسے پیدا ہو سکتی ہے، بھائیوں کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے کہ ایک بھائی دوسرے بھائی کی دوسروں کے سامنے برائیاں کرتا ہے۔


معاشی تنگی

معاشی تنگی کا مطلب یہ ہے کہ آمدنی کے وسائل کم ہوں اور افراد و ضروریات زیادہ ہوں، بالخصوص اگر جوائنٹ فیملی ہو تو باہمی لڑائیوں کی یہ ایک بڑی وجہ بن جاتی ہے، مثلا گھر میں دو بھائی ہوں ایک زیادہ کمائے اور دوسرا کم، تو بڑا بھائی چھوٹے کو کمتر سمجھتا ہے، بڑی بہو چھوٹی پر اس بات کو لیکر طعنے کستی ہے کہ اس کا شوہر زیادہ کماتا ہے اور گھر کے اخراجات وہی اٹھاتا ہے وغیرہ۔ ماں کو شکایت ہوتی ہے کہ بیٹا اپنی ساری کمائی بہو کو سونپ دیتا ہے، بیوی شکوہ کناں کہ شوہر اس کی معمولی ضرورتیں بھی پوری نہیں کرتا۔ اس قسم کے مزید سیناریو آپ تخلیق کرکے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مالی تنگی گھریلو جھگڑوں کی کتنی بڑی وجہ ہے۔


لاتعلقی اختیار کرنا

گھر کے افراد اگر ایک دوسرے کے ساتھ اپنے احساسات و جذبات، شکایتوں، پریشانیوں اور خوشیوں کا اشتراک نہ کریں اور ایک دوسرے سے لاتعلقی اور دوری اختیار کرنے لگیں تو دلوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، چھوٹی باتیں دل میں جمع ہوکر پکتی رہتی ہیں اور کسی دن آتش فشاں بن کر سامنے آتی ہیں اور نزاع باہمی کی وجہ بن جاتی ہے۔ گھر کے لوگ آپس میں مل جل کر رہنا اور بات چیت کرنا چھوڑ دیں تو رشتے رسمی، بےروح اور کمزور ہوکر رہ جاتے ہیں، ہر شخص خود کو تنہا اور غیر اہم سمجھنے لگتا ہے۔


رشتہ داروں کی مداخلت

گھریلو زندگی میں آزمائش کی ایک بڑی وجہ غیروں یا قریبی رشتہ داروں کی بے جا مداخلت ہے۔ عموما بہنیں شادی کے بعد بھی اپنے بھائی کے گھر میں حکمرانی کرنا چاہتی ہیں، وہ گھر کی بہو کو اپنا حریف سمجھتی ہیں، اور بھائی کو ان کے خلاف اکساتی ہیں، یہ رویہ لازمی طور پر فساد کی وجہ بنتا ہے، اسی طرح ماں بیٹے اور بہو یا بیٹی اور داماد کی زندگی میں مداخلت کرنا شروع کر دے تو پھر تباہیوں کا دروازہ کھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ ناہنجار قسم کے رشتہ دار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ شادی اگر ان کی پسند کے خلاف ہوا ہو تو وہ میاں بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے درمیان جھگڑے ہوں اور وہ خاندان میں یہ ثابت کر سکے کہ وہ رشتے کے حوالے سے اس کی رائے صحیح تھی، یعنی محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر شوہر اور بیوی کے درمیان اشتعال انگیزی کا کام کرتے ہیں۔


حقوق و انصاف پامالی

خاندانی جھگڑوں کی ایک بڑی وجہ ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی اور ناانصافی ہے، اگر ہر فرد اپنے فرائض کو سمجھے اور انھیں بخوبی انجام دے تو گھر جنت نظیر بن سکتا ہے، مگر عام طور پر ایسا نہیں ہوتا؛ بلکہ یہاں لوگوں کا مزاج ایسا ہے کہ وہ بس اپنے حقوق کے مطالبات کرتے ہیں، دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی قطعا انھیں پروا نہیں ہوتی۔ بیٹا زن مرید ہو جائے، والدین کو نظر انداز کرے، ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھے اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور بات چیت کم کر دے تو یہ یقینا نا انصافی ہے، اسی طرح ساس اگر بیٹے پر اپنا مکمل حق جتائے، بہو کو ہمیشہ مشکوک نگاہوں سے دیکھے، بیٹا اپنی بیوی کے لیے کچھ لائے یا کچھ خریدے تو ساس خفا ہو جائے، ساس کا یہ رویہ بھی ناانصافی ہر مبنی ہے۔ یہاں ہر شخص کے اپنے حقوق ہیں اور ہر فرد کو ان کا خیال رکھنا ضروری ہوگا، حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی برتی گئی تو افرادِ خاندان کے اندر احساس محرومی اور نفرت و کدورت پیدا ہوگی جس کا لازمی نتیجہ لڑائی جھگڑوں کی صورت میں ظاہر ہوگا۔


گھریلو جھگڑوں کے نقصانات

گھریلوں جھگڑوں کے نتائج و اثرات بڑے تباہ کن اور خطرناک ہوتے ہیں، ان کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں؛ کیوں کہ لڑائی جھگڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ پھر گھر کا امن و سکون غارت ہوتا ہے، رحمت و برکت کا نزول اور رحمت کے فرشتوں کا ورود بند ہو جاتا ہے، جہاں جھگڑے ہوتے ہیں وہاں شیطان کا بسیرا ہوتا ہے۔ ہر فرد بے سکونی اور ذہنی اذیت میں مبتلا رہتا ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت متاثر ہوتی ہے، ان کے دلوں سے بڑوں کی عظمت نکل جاتی ہے۔

شوہر اور بیوی کی معمول کی لڑائیاں بالآخر طلاق پر منتج ہوتی ہیں، خاندانی شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے، معاشرے میں خاندان کی خوب فضیحت و رسوائی ہوتی ہے۔ ان سب کے علاوہ خرابیوں اور نقصانات کی ایک طویل فہرست ہے، ہم نے بس دعوت فکر دی ہے، اہل نظر خوب واقف ہیں کہ جھگڑوں کے نتائج کتنے خطرناک ہوتے ہیں۔


گھریلو جھگڑوں سے نجات کے حل

اب سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ گھریلو جھگڑوں سے نجات کے کیا حل ہیں؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اسلامی قانون معاشرت کو اپنی زندگیوں میں نافذ کیا جائے۔ تاہم ہم قرآن و سنت کی روشنی میں چند نکات کا ذکر کر رہے ہیں جو انتہائی موثر اور کارآمد ہیں۔


حسن اخلاق

سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ ہر فرد حسن اخلاق سے آراستہ ہو جائے، حسن اخلاق دین کا بہت اہم جز ہے، معاف کرنا، صبر سے کام لینا، برائی کا جواب بھلائی سے دینا، نرم لہجے میں گفتگو کرنا اور ایک دوسرے کے آداب بجا لانا، یہ ایسی چیزیں ہیں جو گھریلو سکون کا ضامن ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

خالق الناس بخلق حسن. (رواه الترمذي)

یعنی لوگوں سے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آؤ، آپ علیہ السلام کا یہ دو ٹوک ارشاد ہی گھریلو ناچاقیوں کے خاتمے کے لیے کافی ہے۔ اگر ہر کوئی حسن اخلاق کے زیور سے آراستہ ہو جائے، ساس بہو کی غلطیوں پر طعن و تشنیع کے بجائے نرمی برتنے لگے، بہو ساس کے سخت لہجوں پر صبر کرنے لگے اور شوہر بیوی کی حرکتوں کو برداشت کرنے لگے، تو گھر یقینا امن و سلامتی کی آماجگاہ بن جائےگا۔

دینی ماحول

جس گھر کے افراد دیندار ہوں وہاں لڑائی جھگڑے جیسی چیزیں نہیں پیدا ہوتی ہیں، اگر ہر شخص دل میں خوف خدا رکھے اور اپنے قول و عمل میں اللہ کو حاضر و ناظر سمجھے تو وہ ہرگز کسی پر ظلم و زیادتی، کسی کے متعلق بدگمانی، طعن تشنیع، بےجا سختی اور گالم گلوج نہیں کرےگا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:


وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا. (النساء)

یعنی تم اس اللہ سے ڈرو جس کے نام سے تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ کرو، یقینا اللہ تم پر نگہبان ہے۔

تقوی سے برائیوں کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں، اور صفتِ تقوی کو گھر کے ہر فرد کے اندر پیدا کرنے کے لیے عبادات اور تلاوت و اذکار کے اہتمام کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا ماحول پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔


حقوق کی ادائیگی

ایک خاندان میں مختلف افراد رہتے ہیں اور ہر ایک کا مقام و مرتبہ بھی مختلف ہوتا ہے، شریعت اسلامیہ نے ہر ایک کے لیے حقوق متعین کیے ہیں، جن میں کوتاہی برتنے کی صورت میں فساد و بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہر فرد کو اس کا حق مکمل طور پر ادا کیا جائے، اولاد والدین کا حق ادا کریں، والدین اولاد کے حقوق کا خیال رکھیں، اسی طرح شوہر بیوی ایک دوسرے کے حقوق کا مکمل لحاظ کریں، بڑے افراد چھوٹوں پر رحم و عطوفت اور شفقت کا معاملہ کریں اور چھوٹے بڑوں کی تعظیم بجا لائیں۔ جب ہر فرد کا یہ مزاج بن جائے گا تو لڑائی جھگڑے تو دور کی بات ہے، دلوں میں نفرت، حسد اور بدگمانی تک بھی پیدا نہیں ہوگی۔


رشتہ دار مداخلت نہ کریں

رشتوں اور تعلقات کے اپنے حدود ہوتے ہیں، گھریلو سکون قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ رشتہ دار اپنے کام سے کام رکھیں کسی کی نجی زندگی میں مداخلت نہ کریں، خاص کر شوہر اور بیوی کے درمیان ساس، نند، بہنوئی اور دیور وغیرہ ہرگز مداخلت نہ کریں، اگر کوئی ایسا کرتا بھی ہے تو محبت کے ساتھ اسے اس عمل سے باز رہنے کی تلقین کر دینی چاہیے۔ ہر خاندان کی فضا مخلف ہوتی ہے، ترجیحات و مسائل مختلف ہوتے ہیں اہل خاندان ان کو بہتر سمجھ سکتے ہیں کسی دوسرے فرد کو ان مسائل میں ٹانگ نہیں اڑانا چاہیے۔ نیز جب کوئی تیسرا فرد خاندان کے کسی فرد کے حوالے سے کوئی بات سنائے تو اس پر آنکھ بند کرکے یقین کرنے کے بجائے اس سنانے والے کو تنبیہ کر دینا چاہیے۔

نیز کوئی معاملہ یا مسئلہ درپیش ہو تو خاندان کے افراد کو چاہیے کہ وہ باہم مشورہ کرکے اس کا حل نکالیں، مشورے میں برکت ہے، ایسا کرنے سے ہر فرد خود کو اہم محسوس کرےگا اور لڑائی جھگڑوں کی نوبت نہیں آئےگی۔

ان سب کے علاوہ لڑائی جھگڑوں کے جو اسباب بیان کیے گئے ہیں ان سے بچنے کی کوشش کی جائے، یاد رہے گھریلو جھگڑے محض وقتی تلخیاں نہیں ہوتے، بلکہ پورے خاندان کی بنیاد کو ہلا دینے والے ہوتے ہیں اور رشتوں کی مٹھاس زہر آلود ہو جاتی ہے۔

یہ جھگڑے عدالت اور قانون سے حل نہیں ہو سکتے، ان کو حل کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ دلوں کو صاف رکھا جائے، گفتگو میں نرمی برتی جائے اور دل میں اللہ کا خوف پیدا کیا جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)